تحریر: مولانا امداد علی گھلو
حوزہ نیوز ایجنسی | ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے نو منتخب صدر صاحبزادہ ڈاکٹر ابوالخیر محمد زبیر کی جانب سے غزہ پر جاری اسرائیلی دہشت گردی کی مذمت نے نہ صرف ہمارے معاشرے کے حساس اور بیدار افراد کو بیدار کیا ہے، بلکہ اسلامی دنیا کے حکمرانوں اور عوام کے درمیان ایک واضح خلا کو بھی اجاگر کیا ہے۔ غزہ میں اسرائیلی مظالم کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ ایسے مظالم جو معصوم بچوں، خواتین اور نہتوں پر کیے جا رہے ہیں، ان کے خلاف عالمی سطح پر آواز بلند کرنا ہر باضمیر انسان کا فرض ہے، مگر افسوس کہ اسلامی ممالک کی قیادت، اور پاکستان جیسے مسلمان ملک کی حکومت اس مسئلے پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس خاموشی کو دیکھتے ہوئے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہم نے انسانیت اور انصاف کے اصولوں کو بھلا دیا ہے؟
ڈاکٹر ابوالخیر محمد زبیر نے اس صورتحال پر نہ صرف افسوس کا اظہار کیا بلکہ اس بات کی اہمیت پر بھی زور دیا کہ حکومتِ پاکستان کو فوری طور پر اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کرنا چاہیے، تاکہ اسلامی ممالک متحد ہو کر فلسطینیوں کے حق میں کھڑے ہو سکیں اور اسرائیل کے ظالمانہ مظالم کے خلاف ایک مضبوط موقف اپنائیں۔ ایسی کانفرنس کا انعقاد اسلامی دنیا میں اتحاد کی علامت ہوگا اور فلسطینیوں کے لیے امید کی ایک کرن بھی۔ پاکستان، جو اسلامی دنیا میں ایک خاص مقام رکھتا ہے، اس مسئلے پر خاموشی اختیار نہیں کر سکتا۔ اسے دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ مل کر فلسطینیوں کے حقوق کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہییں۔
یہ وقت ہے کہ اسلامی ممالک کے حکمران اپنے اندرونی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک صف میں کھڑے ہوں۔ فلسطینیوں کی مشکلات کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ ڈاکٹر زبیر کا یہ مطالبہ کہ اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بلایا جائے، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ صرف مذمتی بیانات اور قراردادیں اس مسئلے کا حل نہیں بلکہ ایک ٹھوس، عملی حکمتِ عملی اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ تجویز ایک بہترین قدم ہو سکتا ہے کہ جس سے اسلامی ممالک کی جانب سے اسرائیل کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ فلسطینیوں کے حقوق کو نظر انداز کرنا قابلِ قبول نہیں۔
اسلامی سربراہان کو یاد رکھنا چاہیے کہ فلسطین کا مسئلہ محض سیاسی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ انسانیت کی بقا اور انصاف کی حفاظت کا معاملہ ہے۔ جو عالمی برادری اور عرب حکمران خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، ان کی یہ خاموشی ظالم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ اگر آج ہم نے اپنی آواز بلند نہ کی اور فلسطین کے مظلوم عوام کے حق میں کھڑے نہ ہوئے تو یہ خاموشی ایک دن ہم سب کے لیے بھی سوالیہ نشان بن جائے گی۔ صاحبزادہ زبیر کا یہ مطالبہ اسلامی ممالک کی غیرت اور بیداری کو جھنجھوڑنے کا پیغام ہے کہ وہ متحد ہو کر فلسطین کے مظلوموں کی حمایت میں آگے آئیں۔
فلسطین کے معصوم شہری اور بچے ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔ ہماری خاموشی ان کے لیے مایوسی کی وجہ بن سکتی ہے، اور یہ ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کی حمایت میں ان کے ساتھ کھڑے ہوں۔ ڈاکٹر زبیر نے اس مسئلے پر بات کر کے ہمیں ایک عظیم ذمہ داری کا احساس دلایا ہے اور اس خاموشی کو توڑنے کا پیغام دیا ہے جو اسلامی ممالک کے حکمرانوں میں نظر آتی ہے۔ ہمیں اس وقت اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم ایک مضبوط اور متحد آواز بن کر دنیا کو بتا سکیں کہ فلسطینی عوام اکیلے نہیں ہیں۔
اگر حکومت پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک اس وقت عملی اقدامات نہیں اٹھاتے تو یہ خاموشی صرف فلسطین کے لیے نہیں بلکہ خود ان ممالک کے مستقبل کے لیے بھی ایک خطرہ بن سکتی ہے۔ خاموشی کی اس روش کو ترک کر کے عملی قدم اٹھانے کا وقت آچکا ہے، کیونکہ تاریخ کسی کو بھی معاف نہیں کرتی۔